فنِ گفتگو

0 174

عائشہ احمد علی
فرد کی پوری زندگی قول و فعل سے عبارت ہوتی ہے انسان اپنے الفاظوں کو استعمال کر کے دوسروں تک اپنے جذبات پہنچاتا ہے اور اسی سے انسان کی پہچان ہوتی ہے۔کیوں کہ انسان خیالات و احساسات کا ایک پتلا ہے گفتگو انسانی زندگی میں بہت اہمیت کی حامل ہے ۔درحقیقت شخص کی شناخت اس کی گفتگو سے ہوتی ہے گفتگو پاکیزہ بھی ہوتی ہے

اور رذیل بھی ۔پاکیزہ خیالات رکھنے والے شخص کی گفتگو پاکیزہ ہوگی بھٹکے ہوئے شخص کی گفتگو اس شخص کی گمراہی کو عیاں کر رہی ہوگی ۔بے چین اور مضطرب شخص کی گفتگو اس کے اضطراب کو ظاہر کرے گی اس کے برعکس پرسکون اور اطمینان قلب رکھنے والے کی گفتگو بھی آپ کو اطمینان اور فرحت کا احساس بخشے گی ۔

آدمی کی خواہشوں اور تمناؤں کا اظہار بھی صرف گفتگو سے ہی ممکن ہے اس کی فکر و خیالات کی وسعت و تنگ نظری، اس کے خیالات کی پاکیزگی وآلودگی اس شخص کے ایک جملے سے اس کی شخصیت کا مظہر بیان کرسکتی ہے۔

قرآن حکیم و فرقان حمید میں اس کے بارے میں نہایت ہی جامع میں گہرے احکامات ملتے ہیں۔
نیز گفتگو میں الفاظ کا استعمال، انداز گفتگو، موقع و محل تمام چیزوں کی رہنمائی کرتی ہے۔نیز یہ بھی واضح ہوتا ہے کہ گفتگو کیسی ہونی چاہیے ۔
ارشاد ربانی ہے

ترجمہ :(مفہوم)”اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو “(الاحزاب:٧٠)
گفتگو ہی ایسا ذریعہ ہے جس سے کسی بھی شخص کی ذہنی میعار، قابلیت، اور شخصیت کا اندازہ ہو سکتا ہے لہذا گفتگو کا اسلوب شائستہ،مودبانہ اور متوازن ہونہ چاہیے۔

گفتگو اچھائی، سچائی اور انصاف پر مبنی ہونی چاہیے:
ترجمہ(مفہوم):”کوئی بات اس کی زبان پر آتی ہے کہ ایک نگران اسے محفوظ کرنے کے لیے مستعد رہتا ہے۔”(ق ١٨: ۵٠)
حدیث پاک میں ارشاد ہے

مفہوم:”سچ بولنے کی عادت بنا کیونکہ سچائی نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے۔”
گفتگو میں نرمی کا حکم:
گفتگو ہمیشہ نرم، آہستہ ،اور درمیانی آواز میں کرنی چاہیے لیکن نہ اتنی آہستہ کے مخاطب سنا سکیں اور نہ اتنا بلند کہ مخاطب پر رعب جمانے کا خطرہ ہونے لگے ۔

(مفہوم)”کیا میں تمہیں بتاؤں کہ کس شخص پر آگ حرام ہے اس شخص پر جو لوگوں سے قریب، نرم خو اور آسان ہو۔” (الحدیث)
ﺳﻮﺭﮦ ﮐﮩﻒ ﮐﯽ ﺍﻧﯿﺴﻮﯾﮟ ﺁﯾﺖ ﮐﺎ ﺍﯾﮏ ﻟﻔﻆ ﮨﮯ
” ﻭﻟﯿﺘﻠﻄﻒ ” . ﺍﻭﺭ ﻧﺮﻣﯽ ﺳﮯ ﺑﺎﺕ ﮐﺮﻧﺎ .(الکہف)

ایک اور جگہ اونچی آواز کو گدھے کی آواز سے تعبیر دی گئی ہے ۔
مفہوم:”اور اپنے چلنے میں میانہ روی اختیار کر اور اپنی آواز پست کر بے شک آوازوں میں سب سے بُری آواز گدھوں کی ہے۔ (لقمان:١٩ )
مفہوم:”جس طرح کی لکڑی نرم ہوگی اس کی شاخیں زیادہ ہونگی،پس نرم طبیعت اور نرم گفتگار بن جاؤ تاکہ تمہارے چاہنے والے زیادہ ہوں۔”(الحدیث)

مفہوم:”جو نرمی سے محروم رہا وہ خیر سے محروم رہا۔”(الحدیث)
بوقت ضرورت مختصر اور جامع بات کرنے کا حکم
مفہوم:”بہترین بات وہ ہے جو مختصر اور مدلل ہو “(الحدیث)

گفتگو کے آداب کے لئے سب سے بڑی اور جامع مزاحت “سورہ حجرات” میں ملتی ہے ۔
جس میں گندی زبان، غیبت، برائی، چغلی، نقلیں اتارنا، بُرے القابات سے نوازنا، جھوٹی تعریف، مذاق اڑانا، بات بات پر قسم کھانا،جھوٹی گواہی،جھوٹے وعدے کی سختی سے ممانعت آئی ہے ۔

مفہوم:”مومنوں کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کریں ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں تمسخر کریں ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہو، اور اپنے مومن بھائی کی عیب جوئی ،اور ایک دوسرے کو بُرے نام سے پکارو ایمان لانے کے بعد بُرا نام رکھنا گناہ ہے۔اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں اہل ایمان بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کیونکہ بعض گمان گناہ ہے

اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی یہ پسند کرتا ہے کہ اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھائے؟؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا اور مہربان ہے “(الحجرات : ١١/١٢)

مفہوم :”مسلمان نہ طعنہ دیتا ہےنہ لعنت بھیجتا ہے نہ بد زبانی اور فحش کلامی کرتا ہے “(الحدیث)

مفہوم:”جب زبان سے کہو تو انصاف کی بات کا ہو چاہے وہ تمہارے رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو”(القرآن)

اس کے علاوہ نامحرم مرد اور عورت کی گفتگو کا بھی ایسا طریقہ بتا دیا گیا ہے ۔

سورۃ احزاب میں ارشاد ربانی ہے،
مفہوم:” کھرے لہجے میں گفتگو کرو لہجے کی نزاکت ظاہر نہ کرو کہ سننے والے کے دل میں کوئی بُرا خیال پیدا ہو۔”(القرآن)

جاہلوں سے گفتگو میں احتیاط:

مفہوم:”اگر جاھل باتوں میں الجھانا چاہیں تو مناسب انداز میں سلام کر کے رخصت ہو جاؤ فضول باتیں کرنے اور (لایعنی گفتگو کرنے والے) امت کے بدترین لوگ ہیں۔”(الحدیث)

مفہوم :”اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کر کے گزرجاتے ہیں “(الفرقان:٦٣)

اچھی بات کہے ورنہ خاموش اختیار کرے:

حدیث مبارکہ میں خاموشی سے متعلق بیان ہے ،
مفہوم :”جو خاموش رہا اس نے نجات پائی “(الحدیث)

مفہوم :”جو شخص اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہو اسے چاہیے کہ اچھی بات کرے ورنہ خاموش رہے۔”(الحدیث)
اس کے علاوہ گفتگو کے بارے میں کسی نے کیا خوب صورت الفاظ کہے ہیں:
“گفتگو احتیاط سے کیجئے آپ کی باتیں آپ کے والدین کی تربیت کا عکس ہوتی ہیں”

“گفتگو کیجیے احتیاط کے ساتھ ،لوگ مر بھی جاتے ہیں الفاظ کے ساتھ ”
لہٰذا یہ کوشش کرنی چاہیے کہ گفتگو ہمیشہ مختصر ،جامع ،سچائی اور انصاف پر مبنی ہو اور ساتھ ہی ساتھ گفتگو میں نرمی اختیار کیا جائے ۔

You might also like

Leave A Reply

Your email address will not be published.