کرونا وائرس وبلوچستان کے تعلیمی ادارے
تحریر،تنویر لہڑی
بلوچستان رقبے کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہیں اور آبادی کے لحاظ سےکم پاکستان کے دیگر صوبہ سے کم آبادی رکھنے والا ہہ صوبہ قدرتی معدنیات سے مالامال ہے مگر بد بختی اتنی ہے کہ آئے روز ہہ خوبصورت سا صوبہ کسی نہ کسی مصیبت میں لپٹا رہتا ہے
پمساندگی کے لحاظ سے پاکستان میں بلکہ پوری دنیا میں پہلے نمبر پر ہے جہاں پر بات کی جائے تعلیم کی تو شرح خواندگی نہ ہونے کے برابر ہیں مردوں کی شرح خواندگی%39 جبکہ خواتین کی%16 ہے پہاڑوں سے ڈھکا ہہ خوبصورت شہر اپنی مثال آپ ہے،
مگر حال ہی میں عالمی سطح پر پیھلنے والا ہہ مہلک بیماری کرونا وائرس جو چائنہ سے پھیلتے ہوئے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اس مہلک بیماری کی وجہ سے کئی ممالکز نے نقاصانات اٹھائے جس سے پوری دنیا میں خوف وہراس کا سماء چا گیاتھا ،کرونا وائرس نے جہاں عام لوگوں کی زندگی کو متاثر کیا وہاں تعلیمی ادارے اور صنعت سے تعلق رکھنے والے شعوبوں کو بھی کافی نقصان پہنچایا،اس مہلک بیماری کا اثر جب ختم ہوا تو انسانی زندگی معمول پر آنے کیساتھ ساتھ تعلیمی ادارے بھی کلھناشروع ہو گئی 15 ستمبر کو اسکولوں کو کھولنا شروع کردیا گیا
اور کئی طلباء وطالبات کو بغیر کسی امتحان کے پرموٹ کیا گیا دو ماہ کے دوران حال ہی میں حکومتی اداروں خا جانب سے اعلان خیا گیا ہے کہ کرونا وائرس خی دوسری لہر آپہنچی ہے لہذا تعلمی اداروں کو یکم اکتوبر سے دوبارہ بند کردیا جائیگا جنہیں مارچ میں دوبارہ کھولا جائیگا،مگر پرائیوٹ اسکولز کے عہدیداراب تک اس نتیجے پر نہیں پہنچے کہ اکتوبر میں اسکلولوں کو بند کردیا جائیگا کہ نہیں بلوچستان جہاں پر وسائل و معدنیات سے مالا مال ہے وہاں سہولیات کا فقدان بھی کافی زیادہ ہے
چونکہ طلباء طلبات کا کافی وقت ضائع ہوچکا تھا حکومت وقت نے ہہ فیصلہ کیا تھا کہ سردیوں کی چھٹیوں کو محدود کیا جائیگا مگر سہولیات نہ ہونے کی بناء پر اسکلولوں کو اکتوبر میں ہی کھولا جائیگا،
بلوچستان میں تعلیم کے حوالے سے جہاں پر حکومت پرجوش نظر وہاں پر کئ انٹرنیشنل ادارے بھی شرح خواندگی کو بڑھانے کیلے سر جوڑ کوشیش کررہے ہیں خاص طور پر بلوچستان میں جواتین کے شرح خواندگی کو بڑھانے کیلے ہہ ادارے اربوں روپے کی فنڈنگ کرہے ہیں،
چونکہ کسی بھی ملک و قوم کی ترقی کا راز صرف اور صرف تعلیم سے ہی منسلک ہے،جہاں پر بلوچستان حکومت نے تعلیمی ادارے بند کرنے کا اعلان تو کردیا،مگر ایجوکیشن کو پرموٹ کرنے کیلے کوئی خاص میکنزیم نہیں بنایاجس سے طلباء گھر بیٹھے تعلیم حاصل کرسکے،آن لائن کلاسسز کو تو لیکر طلباء پہلے سے ہی کافی پریشان ہے،چونکہ اس امیر صوبے کے غریب طلباء کے پاس انٹرنیٹ کہ سہولیت موجود نہیں جس کی وجہ سے تعلیم دن بہ دن کم اور بلوچستان کی پسماندگی بڑھتی جا رہی ہے؛